جسم کی نعمتیں: اللہ پاک جل شانہٗ نے سارا جسم ہمیں عطا کیا ہے، کبھی ہم نے اپنے جسم پر غور کیاہے کہ اللہ پاک نے ہمیںیہ جسم کیوں دیاہے؟ہمارے جسم کے ایک ایک حصے میں اللہ پاک نے اپنی شان کو بیان کردیا ہے۔ ہم اپنے دماغ ، دل اور آنکھوں کو دیکھیں ہرعضو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہے اور اللہ پاک نے ہمارے جسم کے ہر حصے کو اپنی محبت سے بنایا ہے، یقین جانیےاَحْسَنُ الْخَالِقِیْنْ اللہ تعالیٰ نے جسم کے ہر حصے کو اپنی خصوصی محبت سے بنایا ہے، پھر اللہ پاک نے ہمیںجسم مفت دیا ہے۔ہمارے لیے ایسا قانون بھی ہو سکتا تھاکہ ہر سال اس جسم کی کٹوتی ہوتی اور اللہ جل شانہٗ ایسا کرنے میں حق بجانب تھے لیکن اُنہوں نے جسم کی ساری مشین مفت میں دے دی۔ جسم امانت خداوندی:ایک بزرگ فرمانے لگے : اللہ پاک نے یہ جوجسم ہمیںدیا ہے یہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اسکی حفاظت کرنا ہمارے ذمّہ ہے‘ اگر ہم نے جسم کی حفاظت نہ کی تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے ہم جوابدہ ہونگے۔ غذا کے ذریعے، علاج کے ذریعے، استعمال کے ذریعے جسم کی حفاظت ہمارے ذِمّے ہے اور پھر اللہ والے بزرگ نے فرمایا:اسکی حفاظت کا سب سے بہترین سامان اللہ پاک نے اعمال کو بنایا ہے۔ علاج سے ہماری نظر فوراًدوا پر جاتی ہے، علاج سے ہماری نظر فوراًدُعا پر نہیں جاتی۔ یہ جسم اللہ پاک کی ایک امانت ہے اور امانت اپنی ملکیت نہیں ہوتی، وہ کسی کی عطا کردہ ہوتی ہے اور جس کی عطا کردہ ہے اُس نے اپنی دی ہوئی امانت کا حساب لینا ہے، اپنی امانت کا جواب لینا ہے۔ اُس نے پوچھنا ہے کہ تونے میری امانت کی کتنی فیصد قدردانی کی؟۔ آنکھ کے ذِمّے ایک کام ہے‘اللہ پاک نے آنکھ کے بندہونے اور جھپکنے کا نظام دیا ہے تاکہ کل کو انسان یہ نہ کہہ سکے کہ یااللہ آنکھ کے اندرتو یہ خصوصیت ہی نہیںتھی! اللہ پاک نے ہاتھ کے اندر پھیلنے اور سکڑنے کا نظام رکھا ہے تا کہ کل کو انسان یہ شکوہ نہ کرسکے۔ اللہ پاک نے ہمیںجو دماغ دیا ہے یہ دماغ اللہ پاک نے احکامِ الٰہی کو سوچنے کے لیئے دیاہے۔انسان کا دماغ احکامِ الٰہی کیلئے اور دِل عشقِ الٰہی کیلئے بنایا گیاہے، جتنا دماغ بڑھتاجائیگا اتنا احکامِ الٰہی کی طرف آتا جائیگا۔ اگر یہ دماغ احکامِ الٰہی اور دل عشق الٰہی کی طر ف نہیں آرہا تو پھر یہ مرنے سے پہلے کے نظام کو سوچے گا اور مرنے کے بعد کے نظام کو یقینا ًبھول جائے گا۔اس کے ذِمّے احکامِ الٰہی کی اور عشق الٰہی کی حیثیت ہی کچھ نہیں ہوگی۔یہ مرنے سے پہلے کے نظام کو سوچے گا۔
خالق حقیقی پر محنت: پہلے دور کے انسان مرنے سے پہلے کے نظام کو سوچتے تھے۔پہلے دور کے انسان آخرت پرمحنت کرتے تھے اوراللہ تعالیٰ پر محنت کرتے تھےجبکہ ہماری ساری محنت دنیا پر ہے اور ہماری ساری محنت مخلوق پر ہے۔ ہمارے لیے کمپیوٹر مخلوق ہے، سائنس مخلوق ہے حتٰی کہ حکیم کی دوا مخلوق، ڈاکٹر کی دوا مخلوق، کھانا مخلوق ،پانی مخلوق ہے۔ ساری کائنات کی ساری چیزیں مخلوق ہیں، ہماری ساری محنتیں مخلوق پر ہو ئیں خالق پر نہیں ہوئیں۔پہلے دور کے انسان ساری محنتیںخالق پر کرتے تھے اسکا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ تھوڑی سی کوشش کرنے پر اللہ پاک جل شانہٗ ا نہیں بہت زیادہ عطا کر دیتے تھے۔حیرت انگیز ایجاد:شاہی قلعہ جب انگریز وںنے لوٹا تو شاہی قلعے کے اندر ایک حمام تھا، اس حمام کے اندر گرمی میں ٹھنڈا پانی اور سردیوں میں گرم پانی آتا تھا۔یہ پانی کہاں سے آتا تھا کوئی سمجھ نہیں آتی تھی۔ بڑے بڑے ماہرین کو اسکی تحقیق پر لگایامگر ماہرین تحقیق کرنے کے باوجود اپنے اُس مقصد کو نہ پاسکےتو آخر کار اُس حمام کو توڑا تو دیکھا کہ ایک چراغ ہے وہ خود بخودجل رہا ہے، اس کا تیل کہاں سے آرہا ہے؟ بتّی کہاں سے آرہی ہے، کچھ پتہ نہیں چلا۔ پھرجل بھی ایک خاص سمت میں رہا تھا۔
ہمارے پاس ایک ہاتھ کی لکھی ہوئی پرانی کتاب ہے جووالد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دور کی ہے۔ والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو مطالعہ کا شوق تھااس لئے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتب بہت زیادہ تھیں۔ ان کی کتاب میں ایک عمل ہے اوروہ عمل اب بھی ویسے ہی ہے۔ یہ علم کے طور پر کہہ رہا ہوں، تقدیر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے کہ: ’’سرسوں کا تیل لیں اور ایک مخصوص پیالہ بنا ہوا ہواس میں ڈالیں، جس مریض کو آپ دیکھیں کہ اس کے بچنے کی امید نہیں ہے اُس کا قارورہ (پیشاب) لیں اسکا ایک قطرہ پیالے میں ڈالیں،اب یہ دیکھیں کہ وہ کس سمت میں جاتا ہے، اس پیالے میں سمتیں لکھی ہوئیں ہیں، شمال ، جنوب، مشرق، مغرب، مشرق شمال، جنوب مشرق ساری سمتیں اس پیالے میں لکھی ہوئی ہیں ۔ غور سے اس ایک قطرے کو دیکھیں کہ وہ کس سمت میں جارہا ہے ، جدھر وہ قطرہ جاتا ہے اس سمت کے بارے میں لکھا ہوا ہے۔ اِدھر جائے گا تو مریض بچ جائیگا،اِدھر جائیگا تو مریض کے ساتھ یہ ہوگا اِدھر جائیگا تو یہ ہوگا۔‘‘یہ میں علم کی بنیاد پر کہہ رہاہوں ۔ تقدیر اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ اُس دور کی جتنی بھی پرانی ریسرچ اور پرانی تحقیق کتابوں میں موجود ہے وہ آج بھی کامل ہے اور آج کا سائنسدان بھی اُسے جھٹلا نہیں سکتا۔ اسکی وجہ کیا ہے؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ :اُس دور کے لوگوں کا زیادہ وقت خالق پر لگتا تھا اورتھوڑا وقت مخلوق پر لگتا تھا۔ جس چیز کیلئے بندہ زیادہ محنت کرتا ہے اللہ اُس چیز کی خاصیت کوبندے کے سامنے کھول دیتا ہے۔(جاری ہے)
چنانچہ اللہ پاک نے اُن کے دل کو اُن کے سینے کو کھول دیا ۔
اہل بیت کے شہسوار
حضرت امامِ جعفرصادق رضی اللہ عنہٗ دنیا کہ بہت بڑے سائنسدان تھے اہل بیت کے شاہ سوار تھے۔ اہل بیت میں اُن کابڑا مقام تھا ، وہ دنیا کے بہت بڑے سائنسدان ہیں۔ اُنکی حکمت، اُنکی دا نائی، اُنکے نسخے اور اُن کی کمال کی چیزیںآج بھی سائنس اُن سے لیتی ہے،اُسکی وجہ یہ ہے کہ انہوںنے خالق پر محنت کی تھی اورخالق نے اپنی بنائی ہوئی کائنات کی نعمتیں اُنکے سامنے کھول دی تھیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں